ترکوں کا حسب و نسب اور ان کا اصلی وطن
ماوراء انہ کا علاقہ جےآج ہم ترکستان کا نام دیتے ہیں اور جو مشرق میں منگولیا اور شمالی چین کی پہاڑیوں سے مغرب میں بوزز ( برقزوین ) اور شمال میں کمر یا کے میدانی علاقوں سے جنوب میں برصغیر اور فارس تک پھیلا ہوا ہے
( 1 ) غز خاندانوں کا وطن ہے اس علاقہ میں اس خاندان کے بڑے بڑے قبائل رہائش پذیر تھے اور ترک یا اتر اک کے نام سے پہچانے جاتے تھے
( 2 ) ۔ چھٹی صدی عیسوں کے نصب انی میں ان قبیلوں نے اپنے وطن اصلی کو خیر باد کہ کر گروہ در گروہ ایشیا کو چک کی راہ لی ۔ مورخین ان کی اس نقل مکانی کی کئی توجیهات بیان کرتے ہیں بعض کا خیال ہے کہ اس کی وجہ اقتصادی بد حالیاں ۔ شدید قحط تھا اور بڑھتی ہوئی آبادی نے انہیں ترک وطن پر مجبور کیا اور وہ ایسے علاقوں میں آگۓ جہاں وسع چراگا ہیں اور خوشحال زندگی کے اسباب وافر مقدار میں موجود تھے
. . . . . . . . ایشیا کوچک . . . . . . .
. . . . . . . . . . . اناطولیہ . . . . . .
(3)بعض تاریخ نگاروں کا کہنا یہ ہے کہ اس نقل مکانی کے پیچھے سیاسی عوامل کار فرما تھے ۔ترکوں کو بعض ایسے قبائل کا سامنا کرنا پڑا جن کی طاقت و تعداد ان سے کہیں زیادہ تھی ۔جیسے منگولیا ، اس دشمنی سے بچنے کے لئے انہوں نے ترکستان کو چھوڑ کر ایسے علاقے کی راہ لی جہاں وہ امن اور آتشی کی زندگی بسر کر سکے ۔یہ رائے ڈاکٹر عبداللطیف عبداللہ بن دہیش کی ہے ۔
(4)لہذامنگولیوں کی دشمنی سے بچنے کے لئے ان قبیلوں نے مغرب کی راہ لی اور دریائے جیحوں کے قریبی علاقوں میں بس گئے ۔ جہاں سے بعد میں وافر تا طبرستان اور جر جان آئے اور یہاں بود و باش اختیار کر لی ۔ اس طرح ترک ان اسلائی علاقوں سے قریب ہو گئے ۔ جن کومسلمانوں نے . 21 ھ ، 641 ء میں معرکه نہاوند اور فارس میں دولت ساسانی کے سقوط کے بعدفتح کیا تھا ۔
اسلای دنیا کے ساتھ تکوں کا اتصال
22ھ،652ءمیں اسلامی فوجوں نے باب کے علاقوں میں پیش قدمی شروع کی تاکہ ان کو فتح کر سکیں ۔یہ وہ علاقے تھے جہاں ترک سکونت پذیر ہے اسلامی فوج کے سپہ سالار عبدالرحمن بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ترکوں کے سردار شہر براز سے ملاقات کی ۔ شہرے براز میں عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ سے صلح کی درخواست کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ وہ ارمن پر حملہ کرنے کے لیے اسلامی لشکر میں شریک ہونے کے لیے تیار ہے۔عبدالرحمن نے انہیں اپنے عقائد سراقہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھیج دیا شہر بزار نے سراقہ سے ملاقات کی اور ان سے اپنی خدمات پیش کرنے کے سلسلے میں بات کی سراقہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کی پیشکش قبول کو کرلیا اس بارے میں ایک عریضہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے نام تحریر کیا اور انہیں اس بارے میں اطلاع دی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی سرا کی رائے سے اتفاق کیا اور اس کے بعد مسلمانوں اور ترکوں میں باقاعدہ معاہدہ طے پایا تو مسلمانوں اور ترکوں میں کسی قسم کی جنگ نہ ہوئی بلکہ یہ دونوں لشکر ارمن پر حملہ آور ہوئے اور وہاں اسلام کی اشاعت ہوئی ۔
اس کے بعد اسلامی لشکر فارس کے شمال مشرقی علاقوں کی طرف بڑھے تا کہ مسلمان لشکروں کے ہاتھوں دولت ساسانی کے سقوط کے بعد ان علاقوں میں الہی دعوت کی ترویج ہو سکے ۔یہ وہ علاقے جو شمالی کی طرف اسلامی سپاہ کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے ۔جب صلح کے معاہدے کے بدولت یہ مشکلات ختم ہو گئی تو ان علاقوں اور ملکوں تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوگی اور ترکوں اور مسلمانوں کے درمیان ربط و ضبط پیدا ہوگیا ۔ترک اسلامی تعلیمات سے بہت متاثر ہوئے اور اسلام قبول کر کے اسلام کی اشاعت اور غلبہ دین کے لئے مجاہدین کی صفوں میں شامل ہو گئے ۔
خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں مدثر طبرستان کا پورا علاقہ فتح ہوا ۔31ھ کو اسلامی لشکر دریائے جیحوں سے پاراترا اور ماوراءالنہر کے علاقے میں پڑاؤ کیا ۔اس علاقے کے ترک جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اور اسلام کا دفاع کرنے اور خدائی پیغام کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لئے جہادی سرگرمیوں میں شریک ہوگئے ۔
اس کے بعد بھی اسلامی لشکر کی پیشقدمی جاری رہی ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں بخارا فتح ہوا ۔کامیابی اور کامرانی کا یہ سلسلہ آگے بڑھاؤ اور سمرقند کی اسلام میں شامل ہوا حتی کہ اسلامی سلطنت کی سرحدیں وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی ۔اور ایک وقت وہ آیا کہ ماوراءالنہر کے تمام علاقے اسلامی سلطنت کا حصہ بن گئے اور ان میں بسنے والے ترک قبائل نے خالص اسلامی تہذیب و تمدن کو اختیار کیا ۔
عباسی خلفاء اور امراء کے درباروں میں ترکوں کا اثر و نفوذ بڑھنا شروع ہوا ۔ہر شعبے میں ترکوں کی ایک معتدبہ تعداد دیکھی جانے لگی ۔فوج کاتب اور حکومت کے دوسرے اعلی مناسب ارضی کے کوئی ایسا شعبہ نہیں تھا جہاں پر موجود نہ ہو ۔اپنی خداداد صلاحیتوں اور اخلاص کی بدولت انہیں بڑے بڑے مناصب پر فائز کیا گیا ہے-
جب معتصم تخت خلافت پر متمکن ہوا تو ترکی اثر و نفوذ کے سامنے المناسب کے دروازے کھل گئے ۔بڑے بڑے منصب ترکوں کے سپرد ہوئے ۔ترک اب سلطنت کے ہر شعبے میں کلیدی آسامیوں پر کام کرنے لگے ۔دراصل معتصم ایرانی اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتا تھا ۔ایرانی خلیفہ المامون کے دور سے ایک بہت بڑی طاقت کی حیثیت سے حکومتی عہدوں پر فائز چلے آرہے تھے ۔اور ان میں کافی حد تک خود سحری کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے ۔
معتصم کے اس اقدام نے لوگوں کو کافی حد تک مشتعل کردیا ۔عوام اور سپاہ دونوں میں بے چینی پھیل گئی یہی وجہ تھی کہ معززین نے اپنے لیے ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جہاں اس کی ذاتی فوج اور اعوان مددگار رہائش پذیر ہوئے یہ نیا شہر سامرہ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا ۔اور بغداد سے 125کلو میٹر دور تھا ۔
نیو تاریخ اسلامی نے اہم ترین دور میں ترکوں کو سلطنت میں خاصی اہمیت حاصل ہو گی ۔حتی کہ وہ وقت بھی آیا کہ ترکوں نے ایک بہت بڑی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔اس سلطنت کا دولت عباسیہ کے خلفاء کے ساتھ مضبوط تعلق تھا ۔یہ سلطنت تاریخ میں سلجوقی سلطنت کے نام سے پہچانی جاتی ہے ۔
دوسری بحث
دولت سلجوقیہ کا قیام
بہت جلد انشاءاللہ
0 Comments